Elementor #1206

مقصد زندگی

March 31, 2021      |      11:59PM     

 

بکھری ہوئی سوچوں کو اکھٹا کر لوں ، ہزاروں خواہشوں کو  تمناِواحد میں یکجا کر لوں یا  پھرمنزل کو چھوڑ کر راستے کو اپنا کر لوں۔اس کے خیالوں کے جھرمٹ میں ایک سوچ ابھری اور ٹھہر گیُ کہ زندگی کا مقصد کیا ہے؟  مسافر اس سوال کا بوجھ اٹھاےُ چل پڑا۔ اس جواب کی تلاش میں  جو اس سوال کے بوجھ کو مسافر کے کندھوں سے ہٹانےکی اھلیت رکھتا ہو۔

طویل سفر کے بعدمسافر کی ملاقات جبل سے ہوئی۔ سوالی کو ہر ملنے والا داتا ہی نظر آتا ہے تو اس نے سوال کا کٹورا جبل کے سامنے کر دیا۔ جبل نے اپنے وقار کو مدِنظر رکھتے ہوۓ بھاری آواز میں کہا ۔ مسافر زندگی کا مقصد توازن میں  ٗ  صبر میں ٗ  برداشت میں  اور سکون میں ہے۔ کیونکہ حرکت سے تباہی آتی ہے۔ ذرہ سی جنبش سے بھی دوسروں کا نقصان ہو سکتا ہے۔

مسافر نے حیران آنکھوں سے جبل کی طرف دیکھا  لیکن وہ تو دنیا وجہان سے بیگانا ہو کہ اپنی  آنکھیں بندھ کیے مراقبے میں چلا گیا تھا۔تشنہ ذہن کہ ساتھ اس نے جبل کا شکریہ ادا کیا اور سفر جاری رکھا۔

کچھ فاصلہ طے کرنے کے بعد اس کی ملاقات نمل  سے ہوئی۔ اس نے نمل کو سلام کیا۔نمل نے سلام کا جواب تو دیا لیکن رکی نہیں۔مسافر نے حالات کو سمجھتے ہوےُ    ٗ نمل کے ساتھ دوڑتے دوڑتے سوال کیا۔ آپ کے خیال میں زندگی کا مقصد کیا ہے؟ نمل بنا  رکے بولی   “مسافر زندگی  جدوجہدِمسلسل   ٗ عملِ پہیم   ٗ     اپنے اور قبیلے کے لیے ذریعہ ِمعاش تلاش کرنے میں ہے۔ سکون تو مرنے کے بعد ہی ملتا ہے۔ مسافر ابھی جبل کی پرسکون اور پر ہیبت گفتگو سے سنبھلا نہیں تھا کہ سعی         ِ مسلسل کے نظریہ نے اسے مزید الجھا دیا۔الجھے ہوۓ ذہین کے ساتھ اس نے نمل کا شکریہ ادا کیا لیکن نمل تو دوڑتے دوڑتے دور جا چکی تھی۔

خیر ہمارے مسافر نے اپنا سفر جاری رکھا اور اس کی اگلی ملاقات شجر سے ہوئی۔ شجر کے پاس آتے ہی مسافر کو ٹھنڈی       ہوا کا احساس ہوا۔ جو گرمی راستے میں تھی  شجر کے قرب میں نہ تھی۔مسافر نے شجر سے وہی سوال دہرایا   ۔   شجر نے مسکرا کر کہا                “مسافر  زندگی کا مقصد ہے اوروں  کے لیے جینا۔ دوسروں کو سکون اور چھاؤں مہیا کرنا۔ ان کے لیے خوراک مہیا کرنا اور اگر دوسروں کو آپ کی ضرورت ہو تو اپنی جان تک ان کے لیے قربان کر دینا۔زندگی کا واحد مقصد دوسروں کے لیے آسانی پیدا کرنا ہے۔

مسافر نے شجر کا شکریہ ادا کیا اور سفر جاری رکھا۔ اس کا اگلا پڑاؤآبادی سے دور پہاڑؤں کے درمیان تھا۔ وہیں اس کی ملاقات شاہین سے ہوئ۔ اس نے شاہین سے بھی وہی سوال کیا۔ شاہین بولا زندگی کا مقصد تو اونچی پرواز میں ہے  ٗ اپنی   خود ساختہ حدود کو عبور کرنے میں ہے۔اصول اور ضابطے کے مطابق زندگی گزارنے میں ہے۔بےاصول اور بےنظم زندگی سے بہتر تو موت ہے۔حدف پہ مکمل نگاہ رکھنے اور جب کوئی حدف نہ ہو تب بھی آنے والے وقت کے لیے خود کو تیار رکھنے میں ہے۔کاہلی اور سستی تو وہ زنگ ہے جو ہنر کو کھا جاتا ہے۔ شاہین کی گفتگو سے سرشار ہو کر مسافر نے دوبارہ رختِ سفر باندھا۔

پہاڑوں پر ہی مسافر کی ملاقات  ندی سے ہوئی   ۔ ندی کے میٹھے پانی کو پیتے ہوے اور اپنا عکس اس میں دیکھتے ہوے اس نے ندی سے اپنا سوال دہرایا۔ ندی پر ترنم آواز میں گویا ہوئی۔ زندگی کا مقصد مرتے ہووں کو بچانا             ٗان پر رحمت  بن کے برسنا                       ٗ دوسرے جانداروں کو  قوت فراہم کرنا               ٗ   راستے کی گندگی کو صاف  کرنا                 ٗ    منزل کو نگا ہ میں رکھنا        ٗ   اگر کوئی منزل کی طرف جانے میں رکاوٹ بنے تو اس سے الجھنے میں قطعی وقت صرف نہ کرنا            ٗ راستہ بدل کر  یا نیا راستہ  بنا کر  منزل کی طرف گامزن رہنا             اور پھر آخر کار سمندر میں فنا ہو جانا۔

شاہین کی جذباتی گفتگو اور ندی کےفلسفہِ فنایت    نے  اس کے اندر  کھلبلی مچا  دی۔ ندی کے ماخذ کی طرف سفر کرتے ہوئے مسافر کو احساس ہوا  کہ وہ آبادی سے کافی دور نکل آیا ہے۔پہاڑوں کے درمیان ایک آندھیری گھاٹی میں اس نے پڑاؤ ڈالا۔ سردی سے بچنے کے لیے اس نے لکڑیاں سلگائیں ۔ اس کے خیمے کے پاس پہلے ہی کافی راکھ پڑی تھی۔جس سے اسے اندازہ ہوا  اس گھاٹی میں پہلے بھی کافی مسافر آ چکے ہیں۔ 

لکڑیاں سلگاتے ہوے اسے یوں لگا کہ پرانی راکھ میں کچھ حرکت ہوئی ہے  لیکن مسلسل سفر سے مسافر تھکن کا شکار تھا وہ اس کو اپنے ذہن کی کارستانی سمجھا اور آگ کی حدت کے سامنے سوچوں میں گم ہو گیا۔

اتنے میں دور پڑی راکھ میں حرکت تیز ہوئی۔ پہلے راکھ میں سے ایک پرندے کا سر نکلا اور پھر اس کے پر بھی۔مسافر ابھی حیرت سے باہر نہیں آیا تھا  کے اس نے درختوں کے درمیان پروں کے پھڑپھڑانے کی آواز سنی جسے کوئی بڑا پرندا آسمان سے نیچے اتر رہا ہو۔ کہیں  مقصد  ِزندگی کے پیچھے خواری کرتے کرتے وہ ہذیان کا شکار تو نہیں ہو گیا؟مسافر نے سوچا۔

مسافر بت بنا اس دیوقامت  پرندے کو دیکھ رہا تھا کہ پرندے نے مسافر سے پوچھا تمھیں تمھارے سوال کا جواب ملا کہ نہیں؟ مسافر سوچ رہا تھا کہ اس پرندے کو کہیں تو دیکھا ہے؟ اچانک اس کے دماغ میں روشنی کوندی۔ سیمرغ۔قبیلے کے حکیمُ الحکما نے اس کی تصویر دکھائی تھی اور اس کی پُرحکمت داستانیں سنائیں تھیں۔

مسافر بولا میں تو تذبذب میں پڑ گیا ہوں۔جبل کہ نزدیک سکون وطمانیت  مقصد ہے تو نمل کے نزدیک سعی          ِمسلسل۔شجر  خدمت ِخلق کو مقصد کہتا ہے تو ندی فنایت  کو۔ اور شاہین پراصول اور باضابطہ زندگی کو مقصد ِ حیات بتاتا ہے۔میں جتنا الجھن دور کرنے نکلا تھا اتنا ہی مزید الجھن کا شکار ہو گیا ہوں۔ان میں سے کون ٹھیک ہے اور کون غلط؟میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ مقصد ِحیات کیا ہے؟

مسافر ہر چیز نے تمھیں اپنا مقصد زندگی بتایا ہے اور وہ سب اپنی اپنی جگہ بلکل ٹھیک ہیں۔تم نہ تو جبل ہو       ٗ نہ نمل    ٗ نہ شاہین         ٗ نہ ندی          اور   نہ شجر۔ مقصد  ِزندگی  جاننے کے لیے تو سب سے ضروری چیز خود کو جاننا ہے۔تم  انسان ہو۔ انسان جاتی کا ایک تو عمومی مقصد ہوتا ہے اور دوسرا مخصوص یا نفسی مقصد۔ عمومی مقصد تو انسان کا بندگی یا غلامی کرنا ہے۔اب جو انسان کائنات کے رب کی غلامی نہیں کرتا تو وہ کسی اور کی غلامی ضرور کرتا ہے۔اور جو مخلوق کی غلامی سے بچ نکلتا ہے تو وہ  خود کو آزاد سمجھنے لگتا ہے حقیقت میں وہ اپنی خواہشوں اور نفس کی غلامی اختیار کرتا ہے۔ان سب خداؤں کی غلامی سے نجات رب         ِکائنات کی بندگی کو مقصد         ِ حیات بنا لینا ہے۔

نفسی مقصد تو ہر انسان نے خود تلاش  یا منتخب کرنا ہوتا ہے۔ اور جب وہ مقصد ملتا ہے تو کائنات کے مقدر کے ساتھ انسان کا مقدر ہم آہنگ ہو جاتا ہے۔درد  تو اس ارضی زندگی میں  موت تک  ختم نہیں ہو سکتا  لیکن اس مقصد کے حصول کے بعد کم از کم  دکھ ضرور ختم ہو جاتا ہے۔

تو اپنے مخصوص مقصد کو پانے کے لیے تمھیں  دوسروں کے مقصد کو نقل نہیں کرنا  بلکہ اپنا مقصد اپنے اندر تلاش کرنا ہے کیونکہ جتنا تم اپنے مقصد کو پانے کے لیے بے تاب ہو اس کہیں زیادہ تمھارا مقصد تمھیں پانے کے لیے بےتاب ہے۔

Share on facebook
Facebook
Share on whatsapp
WhatsApp
Share on twitter
Twitter
Share on linkedin
LinkedIn
Share on google
Google+
Share on pinterest
Pinterest
Share on skype
Skype
Share on telegram
Telegram